بسم اللہ الرحمن الرحیم
%% حاضر و ناظر ہونا صفت خاصہ باری تعالی ہے
غیر کو شریک کرنے والا خازج از اسلام ہے %%
::: ترتیب ساجد خان نقشبندی :::
الحمد للہ رب العالیمن والصلوۃ اواسلام علی خاتم الانبیاء و اشرف المرسلین
قارئین کرام الو ہیت کے لواز وخواص اور عبادات کے اصول و قواعد تین ہیں۔تین بنیادوں یا ستونوں پر عبادت کی پوری عمارت قائم ہے۔چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے کلام پاک میں اپنے استحقاق عبادت کو بیان فرمایا ہے تو انہی صفات کا اثبات فرماکر اور غیر اللہ کی عبادت ،دعا و پکار سے منع فرمایاہے تو ان سے انہی صفات کی نفی فرما کر جن میں ان صفات ثلاثہ کا فقدان ہے۔یہ بات یاد رکھیں کہ جب کوئی مشرک کسی کے ساتھ شرک کرتا ہے اور اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرتا ہے تو اس اعتقاد و شعور اور ایمان و یقین کے ساتھ کہ:
(۱) وہ معبود ہر جگہ حاضر وناظر ہے ،جہاں بھی اسے پکاروں وہ میری پکار کو سنتاہے ،میری تکلیف کو دیکھتا ہے اور موقعہ پر میری مشکل کو حل کرتا ہے اور حاجت روائی کردیتا ہے ۔
(۲) وہ معبود عالم الغیب ہے میرے دکھ و درد کو جانتا ہے اسے میرے مصیبت کا خواہ کہیں بھی ہو خوب علم ہے۔دنیا کی کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔
(۳) وہ معبود قدرت و اختیار رکھتا ہے ۔مالک و مختار متصرف فی الامور ہے ۔نفع و نقصان کا مالک ہے ،میری تکلیف میرا دکھ درد دور کرنے والا ہے۔
اگر آپ تھوڑی تحقیق کرکے معلوم کریں تو آپ جانیں گے کہ ہر مشرک بنیادی طور پر یہی تین احساسات رکھتا ہے ۔چنانچہ مشرکین سابقین کے متعلق حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:وقالو ا ھولآء یسمعون و یبصرون و یشفعون لعبادھم و یدوبرون امورھم و ینصرونھم (حجۃ اللہ البالغہ جلد اول ص ۱۰۸)یعنی مشرکین کہتے ہیں کہ یہ معبود سنتے ہیں ،دیکھتے ہیں اپنے پجاریوں کی سفارش کرتے ہیں ان کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔
قارئین ان تین بنیادی اصولوں میں سے دوسرے اصول یعنی علم الغیب ہر ہم تفصیلی گفتگو اسی فورم پر کرچکے ہیں اور دونوں طرف کے دلائل بھی آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں ۔۔اس وقت اس مضمون میں عقیدہ حا ضر و ناظر پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔اور جہاں تک مختار کل کو تعلق ہے تو انشاء اللہ اگر موقع ملے تو اس پر پھر کسی وقت گفتگو کریں گے۔البتہ اس موضوع پر حضرت شاہ صاحب شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’تقویۃ الایمان ‘‘ سے بہتر کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔میری خواہش ہوگی کہ ہر مسلمان اس کتاب کے درس کا اہتمام باقاعدہ گھروں میں کیا جائے ۔
اللہ تعالی ہر چیز پر حاضر موجود ہیں
(۱) ان اللہ علی کل شیء شہید (پارہ نساء ،ع ۵ ،سورہ احزاب ع۷ ۔۲ بار)بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر حاضر ہے۔
(۲) و انت علی کل شیء شہید (پارہ ۷ آکر سورہ مائدہ )اور تو (اے اللہ ) ہر چیز پر حاضر ہے۔
(۳) و کان اللہ علی کل شیء رقیبا (پارہ ۲۲ سورہ احزاب ع۶)اور اللہ تعالی ہر چیز پر نگہبان ہے۔
(۴) وما تکون فی شان وماتتلوا منہ من قران ولا تعلمون من عمل الا کنا علیکم شھودا اذ تضیفون فیہ (پارہ ۱۱سورہ یونس ع۷)اور آپ (خواہ)کسی حال میں ہوں اور آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور تم جو بھی کام کرتے ہو ہم تمہارے پاس حاضر ہوتے ہیں جب تم اس کام میں مصروف ہوتے ہو۔
یعنی جب نبی کریم ﷺ قرآن پڑھتے پڑھاتے ہوں یا اسی خصوصی و امتیازی شان کے علاوہ کسی حال میں ہوں یا کوئی شخص کسی کام کو شروع کرے اور اس میں مصروف و مشغول ہوں۔اللہ تعالی تعالی وہاں موجود ہوتے ہیں۔
(۵) واللہ شہید علی ما تعملون (آل عمران ع۱۰ )اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس پر حاضر ہیں۔
(۶) اللہ شہید علی ما یفعلون (یونس ۱۱ ع۵)
(۷) وھو معکم این ما کنتم واللہ بما تعملون بصیر (پارہ ۲۷ حدید ع اول)تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔
(۸) ما یکون من نجوی ثلثۃ لاھو رابعھم ولا خمسۃ الا ھو سادسھم ولا ادنی من ذالک ولا اکثر الا ھو معھم این ما کانوا ثم ینءھم بما عملوا یوم القیامۃ ان اللہ بکل شیء علیم (پارہ ۲۸ سورہ مجادلہ ع ۲)تین شخصوں کی کوئی سرگوشی ایسی نہیں ہوتی جہاں وہ (یعنی اللہ ) ان میں چوتھا نہیں ہوتا اور نہ پانچ کی جہاں وہ ان میں چھٹا نہیں ہوتا اور نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ مگر وہ (بہرحالت)ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے خوہ وہ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں پھر ان کو قیامت کے دن ان کا کیا ان کو بتلائے گا بے شک اللہ تعالی ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
(۹) یستخفون م نالناس ولا یستخفون من اللہ وھو معھم اذ یبیتون مالا یرضی من القول (سورہ نساء ع۱۶)لوگوں سے چھپتے ہیں اور اللہ سے نہیں چھپ سکتے اور وہ ان کے ساتھ ہیں جبکہ وہ رات کو خلاف مرضی الٰہی بات تا کامشورہ کرتے ہیں ۔
اللہ ناظر بصیر ہے
(۱۰) واللہ بصیر بالعباد (آل عمران ع۲و مومن ع۵)اور اللہ تعالی بندوں کو خوب دیکھنے والے ہیں
(۱۱) انہ کان بالعباد خبیرا بصیرا (بنی اسرائیل ع۳فرقان ع ۲،خاتمہ فاطر،فتح ع۳)بے شک وہ اپنے بندوں سے خبردار اور دیکھنے والا ہے۔
(۱۲) واللہ بصیر بما یعملون (بقرہ ،آل عمران ،انفال ۔۔بقرہ ع۳۶ آل عمران انفال آخر ع حدید،ممتحنہ بادنی تغیر )او ر اللہ دیکھنے والا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔
(۱۳) انہ بکل شیء بصیر (سورہ ملک آکری ع)بے شک اللہ تعالی ہر چیز کو دیکھنے والا ہے ۔
(۱۴) الذی یراک حین تقوم و تقلب فی الساجدین (آؒ خر شعراء )
(۱۵) قل عسی ربکم ان یھلک عدوکم ویستخلفکم فی الارض کیف تعملو ن(پ ۹ ع۵ آیت ۳)کہا نزدیک ہے کہ تمہارا رب ہلاک کردے تمہارے دشمن کو اور تمھیں زمین کا خلیفہ بنادے پھر وہ نظر کرے کہ تم کیسا کام کرتے ہو۔
قارئین کرام انتہائی اختصار کے ساتھ اس وقت آپ کے سامنے قرآن کریم سے کل پندرہ آیات پیش کی گئی ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا یہ صرف اللہ تعالی کی صفت ہے ۔ان میں سے اکثر آیات ایک بار سے زیادہ بار قرآن کریم میں موجود ہیں ۔جبکہ پورے قرآن میں اس مضمون کی قریبا سو آیا موجود ہیں جو ہر ایک کو تھوڑے سے غور فکر کے بعد مل جائیں گی ۔اس وقت ان تمام آیات کا احاطہ کرنا مقصود نہیں بلکہ بات کو سمجھانا اور مسئلہ کو واضح کرنا مقصود ہے ۔اب قرآنی براہین کے بعد اسلام کے دوسرے اصول یعنی احادیث نبوی ﷺ کو بھی ملاحظہ فرمالیں کہ وہاں اس مسئلہ کو کیسے واضح کیا گیا ہے۔
احادیث مبارکہ سے اللہ تعالی کے حاضر و ناظر ہونے کا ثبوت
حضرت ابو موسی اشعریؓ سیروایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے لوگ زور کی آواز سے تکبیر کہنے لگے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
(۱) انکم تدعون سمیعا بصیرا وھو معکم والذی تدعونہ اقرب الی احدکم من عنق راحلتہ (صحیح بخاری ،مسلم ،مشکوۃ شریف باب ثواب التسبیح ) تم تو اس خدا کو پکارتے ہو جو سننے والا دیکھنے والا ہے اور جو تمہارے ساتھ ہے اورتم سے تمہارے اونٹ کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے۔
سبحان اللہ درجنوں آیات قراآنی میں جن صفات ربانی کو واضح فرمایا گیا ایک ہی ارشادنبوی ﷺ میں ان تمام صفات کو میرے آقا ﷺ نے اجمالی طور پر بیان فرمادیا ۔حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زورزور سے اللہ کا ذکر کرنا خاص کر آج کل جو بریلوی مساجد یا دیگر مساجد میں جڑ پکڑ چکا ہے یہ خلاف سنت اور بدعت ہے۔
حضرت عبد اللہ بن معاویہ عامریؓ روایتکرتے ہیں کہ میں نے عرض کیاکہ
(۲) فما تزکیۃ المرء نفسہ یا رسول اللہ قال ان یعلم ان اللہ معہ حیثما (رواہ البزاز فی مسندہ بحوالہ ترجمان السنہ جلد ددوم حدیث ۵۰۷)یا رسول اللہ کسی شخص کا اپنے نفس کو پاک کرنے کاکیاطریقہ ہے ؟فرمایا اسبات کا یقین ہوکہ انسان جس جگہ بھی ہو اللہ اسکے ساتھ ہے۔
(۳) اللھم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الاھل (مشکوۃ المصابیح باب الدعوات فی الاوقات)اے اللہ تو سفر میں میرا ساتھی ہے اور اہل عیال کامحافظ۔
(۴) ان اللہ نظر الی اھل الارض فمقتھم عربھم وعجمھم الا بقایا من اھل الکتاب (صحیح مسلم ج ۲ص ۳۸۵)اللہ نے زمین والوں پر نظر کی اور دیکھا تو تمام عرب و عجم والوں پر ناراض ہو ا مگر اہل کتاب میں سے کچھ آدمی اللہ کی ناراضگی سے بچ گئے۔
(۵) ان اللہ مستخلفکم فیھا فینظر کیف تعملون (مسند طیالسی ص۲۸۶)آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی تمھیں زمین کا خلیفہ بنائے گاپھر نظر کریگا تم کیا کام کرتے ہو۔
(۶) ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولکن ینظر الی اعمالکم (مسلم ج۲ ص۳۱۷ مشکوۃ ۴۵۴)کہ اللہ تعالی تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا (بایں طور کہ کون خوبصورت ہے کون بدصورت)لیکن تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔
(۷) ان الدینا حلوۃ خضرۃ و ان اللہ مستخلفکم فیھا فناظر کیف تعملون (ترمذی ص۴۶،ابن ماجہ ص ۲۹۷،مستدرک ج۴ص۵۰۵،مشکوۃ شریف ۴۳۷)دنیابڑی لذیذ اور سر سبز دلکش ہے اللہ تعالی تمھیں زمین کا خلیفہ بنانے والا ہے پھر دیکھنے والا ہے کہ تم کیا کرتے ہو۔
کاظمی صاحب کی بھڑکیں بھی سن لیں
قارئین کرام اس حدیث میں صاف طورپر اللہ کی ذات پر ’’ناظر‘‘ کا اطلاق کیا گیا ہے مگر دوسری طرف بریلویوں کے جعلی غزالی دوراں احمد سعید کاظمی صاحب کی تحقیق بھی ملاحظہ فرمالیں
اللہ تعالی کے اسماء میں سے حاضر و ناظرکوئی نام نہیں اور قرآ ن و حدیث میں کسی بھی جگہ حاضر و ناظر کا لفظ ذات باری تعالی کیلئے وارد نہیں ہوا نہ سلف و صالحین نے اللہ تعالی کیلئے یہ لفظ بولا ۔کوئی شخص قیامت تک ثابت نہیں کرسکتا کہ صحابہ کرام یاتابعین یا آئمہ مجتہدین نے کبھی اللہ کیلئے حاضر و ناظر کالفظ استعمال کیاہو۔(تسکین الخواطر ص۳)
کاظمی صاحب تواب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن بریلوی حضرات اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیایہ حدیث نہیں اور کیااس میں ناظر کا لفظ جناب رسول اللہ ﷺ نے ذات باری تعالی پر اطلاق نہیں کیا ؟اور کیااس حدیث کے پہلے راوی ابو سعید الخدریؓ صحابی رسول ﷺ نہیں ؟۔۔اور کیا ابو نضرہ ؒ تابعی نہیں جویہ روایت نقل کررہے ہیں ۔۔۔۔۔؟؟؟؟
ٹوٹ جائے نہ تیغ اے قاتل سخت جان ہوں ذرا سمجھ کر کھینچ
بریلوی حضرات سے اس موضوع پر بات کرنے کے اصول
اس موضوع پر بات کرنے کیلئے وہی اصول اپنائیں جو فقیر آپ کے سامنے علم غیب پر بات کرنے کے اصول میں بیان کرچکا ہے ۔اس لئے کہ یہ بات پہلے واضح کی جاچکی ہے کہ اپنے مطلب اور مدلول کے اعتبار سے یہ دونوں ایک ہی موضوع ہیں صرف لفظی تغایر ہے۔
مناظرے کا ایک اہم رکن مدعی کا تعین ہے۔جیسا کہ میں پہلے واضح کرچکا ہوں کہ انٹرنیٹ پر اکثر ساتھی جوش میں آکر اختلافی موضوعات پر خود ہی مدعی بن جاتے ہیں اور بریلوی پھر بار بار دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ بات یاد رکھیں کہ تمام اختلافی امور میں بریلوی حضرات ہی مدعی ہیں۔مدعی کی تعریف میں علم الغیب والے مضمون میں واضح کرچکا ہوں وہ تمام امور میں بریلوی حضرات پر ہی صادق آتی ہے۔اس موضوع پر بریلوی مدعی ہیں چند دلائل ملاحظہ ہو۔
(۱) مدعی کی ایک تعریف یہ ہے کہ اذا ترک ترک جب وہ اپنا دعوی چھوڑ دے تواس سے بحث و مباحثہ چھوڑ دیا جاتا ہے ۔یہ تعریف بریلویوں پر صادق آتی ہے اگر بریلوی مخلوق کیلئے حاضر و ناظر کا دعوی چھوڑ دے تو ہم ان سے بحث ترک کردیں گے۔
(۲) اصول مناظرہ میں یہ بات طے ہے کہ بدیہات میں مناظرہ نہیں ہوتا اور ایک شخص کا ایک وقت میں ایک سے زائد مکان میں نہ ہونا یہ بدیہات میں سے ہے اس اصول کے تحت تو بریلوی حضرات کے دعوی اس قدر خلاف ہے کہ ان سے اصول کے تحت مناظرہ بھی نہیں ہوسکتا مگر وہ کرتے ہیں تو ہمیں بھی جواب دینا پڑتا ہے لہٰذا مدعی بریلوی ہونگے۔
(۳) مدعی کی ایک تعریف یہ میں نے بتائی تھی کہ جو ایک زائد امر کو ثابت کرے بریلوی حضرات اللہ کے سوا مخلوق کو(جی ہاں وہ اولیاء کو بھی حاضر و ناظر بلکہ عالم الغیب تک مانتے ہیں دیکھئے بہار شریعت حصہ اول) حاضر و ناظر مانتے ہیں جو کہ امر زائد ہے اس اصول کے تحت وہ مدعی ہیں۔اسکے علاوہ بھی کئی دلائل ہیں تفصیل کیلئے حمیدیہ یارشیدیہ کا مطالعہ کریں جو اصول مناظرہ پر لکھی گئی معروف کتابیں ہیں۔
مدعی متعین ہوجانے کے بعد وہ اپنا دعوی لکھے گا اور اپنے موقف پر دلائل دے گا آپ کا کام ان کے دلائل پر نقض تفصیلی دائر کرنا ہوگا اور اپنے موقف پر بھی دلائل دے سکتے ہیں۔مگر یہ آپ پر ضروری نہیں اور نہ ہی وہ اس کا مطالبہ کرے گا۔انٹرنیٹ پر (پال ٹالک) پر فقیر نے یہ دیکھا ہے کہ اکثر فریقین طوطے کی طرح اپنے اپنے موقف پر دلائل دیتے ہیں اور دوسری کی دلیل پر بالکل جرح نہیں کرتے یہ بالکل غلط طریقہ ہے کہ اس سے عوام یہ سمجھتی ہے کہ دونوں طرف سے قرآن و حدیث پیش کیا جارہا ہے جس پر چاہے عمل کرو ۔نہیں پہلے فریق مخالف کے دلائل پر تفصیل کے ساتھ نقص دائر کریں اس کے بعد اپنی دلیل دیں۔
بریلوی اللہ تعالی کو حاضر و ناظر نہیں مانتے جس کا ثبوت آگے آئے گا لیکن ہم صرف اللہ تعالی کو ہی حاضر و ناظر مانتے ہیں لہٰذا اس پر دلیل بھی ہم دیں گے۔
حاضر و ناظر کا مسئلہ عقائد کا مسئلہ ہے لہٰذا دلیل صرف قطعی ہوگی یعنی قرآن کی آیت جو قطعی الدلالت ہو یعنی اس کے اندر ایک سے زائد احتمال نہ ہو ورنہ قطعی الثبوت تو ہوگی قطعی الدلالت نہ ہوگی یاد رہے کہ قرآن تمام کاتمام قطعی الثبوت ہے اس کا منکر کافر ہے مگر قطعی الدلات نہیں۔اور حدیث اگر ہو تو متواتر البتہ اگر خبر احادکو تلقی قبول حاصل ہوگیا ہو تو اس سے بھی مستقل استدلال کیا جاسکتا ہے۔
کشف و کرامت حجت نہیں لہٰذا وہ پیش نہیں کیا جائے گا۔اور یہ اصول کے تحت مبرہن ہے کہ کشف و کرامت تو خود صاحب کشف کیلئے حجت نہیں تو ہمارے لئے کیسے ہو۔صوفی کا کوئی قول پیش نہیں کیا جائے گا۔اکابرین امت کے اقوال اپنے دلائل کی تائید کیلئے پیش کئے جاسکتے ہیں ۔مگر ان سے مستقل احتجاج ہر گز قابل التفات نہیں۔خواب بھی معتبر نہیں۔مولوی سعید کاظمی نے تسکین الخواطر میں باقاعدہ دلیل دی ہے کہ حضور ﷺ ہر کسی کے خواب میں آتے ہیں لہٰذا وہ حاضر و ناظر ہیں۔۔اس پر تفصیلی دلائل میں نے حضرت تھانوی ؒ کے مرید پر کلمہ پڑھنے کے الزام کا جواب میں دیا۔لیکن اگر وہ نہ مانے تو اس سے کہو کہ اگر کل کو کوئی مسلمان خواب میں دیکھ لے کہ کسی بریلوی مولوی کی بیٹی سے نکاح کررہا ہے تو کیا وہ اس کو اپنی بیٹی دیں گے۔۔؟؟؟؟اس لئے کہ خواب تو ان کے نزدیک حجت ہے ۔۔ان سے پوچھو کہ اگر خواب سے کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو بریلوی اپنے مولویوں پر حد جاری کیوں نہیں کرتے ۔۔جب ان کو خواب میں احتلام ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟انشاء اللہ ان کا منہ بالکل بند ہوجائے گا۔۔شرافت سے ان کا منہ آپ کبھی بند نہیں کرسکتے۔
دلائل مسلم بین الفریقین کتب سے دئے جائیں اگر کوئی کتاب یا کسی ہستی کو فریق مخالف نہیں مانتا تو آپ اس سے حوالہ نہیں دیں گے ہاں اگر وہ ضد کی بناء پر کسی معتبر ہستی کا انکار کرتا ہے جیسے آج کل بریلوی حضرات مفسر ابن کثیر یا حضرت شاہ والی اللہ رحمھما اللہ پر فتوے لگاتے ہیں تو یہ ان کی ہٹ دھرمی ہے اس کو ہرگز نہیں مانا جائے گا۔بلکہ اس صورت میں آپ اس کی تحریر بھی لیں ۔
عقائد قیاس میں معتبر نہیں القیاس لا یجری فی العقائد ۔لہٰذا قیاس نہیں چلے گا مطلب بریلوی کہے گا کہ شیطان ہر جگہ حاضر و ناظر ہے العیاذ باللہ (یہ بالکل سفید جھوٹ ہے آگے ثابت کیا جائے گا) تو حضور ﷺ بھی ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں کہ وہ شیطان سے افضل ہیں نعوذ باللہ (عبد السمیع انوار ساطعہ مفتی احمد یار جاء الحق)ایسا شیطانی قیاس نہیں چلے گا۔آپ کہو کہ اگر میں کہوں کہ مکھی اڑتی ہے مگر مولوی رضاخان نہیں لہٰذا مولوی رضاخان مکھی سے اسی صورت میں افضل ہونگے جب وہ اڑیں گے تو کیا وہ اس کو مانیں گے۔۔۔؟؟؟
آیت کے مقابلے میں آیت حدیث کے مقابلے میں حدیث اگر ایسا نہیں تو پہلے اس سے تحریر لیں کہ ہمارے پاس اس کا جواب آیت و حدیث سے نہیں ۔۔اسکے بعد اس کا جواب دیں اگر دینا چاہیں۔
یہ شرط لازمی رکھیں کہ دوران مناظرہ فریقین ایک دوسرے جوبات لکھنے کا مطالبہ کریں تو دوسرے پر تحریر دینی لازمی ہوگی۔
اگر کوئی کتاب کسی فریق کے پاس نہیں اور دوسرا فریق ایسی کتاب سے دلائل دے رہا ہے تو مطالبے پر اصل کتاب دوسرے فریق کو دکھانا لازم ہوگا۔
وقت کا تعین کہ مناظرین کی تقریریں کتنے کتنے منٹ پر ہوگی اور مدت مناظرہ مثلا ایک دن دو دن تین دن۔اس سے زیادہ مناظرے کا وقت مقرر نہ کریں۔
جو موضوع طے ہوا ہے اس کو چھوڑ کر یا موضوع کے دوران دوسرے موضوع کو چھیڑنے والے فریق کی یہ حرکت اس کی شکست ہوگی۔انشاء اللہ بریلوی مناظر نے اس موضوع پر جو مواد رٹا ہوگا وہ تیسری چوتھی تقریر پر ہی ختم ہوجائے گا اور پھر وہ اپنے اصل موضوع یعنی عبارت اکابر پر آجائے گامثلا وہ کہے گا کہ تم کیوں حضور ﷺ کو حاضر و ناظر مانو گے۔تم تو ہو ہی گستاخ تمہارے فلاں مولوی نے یہ کہا وہ کہا اس کا ہر گز جواب نہ دے بلکہ ان سے تحریر لیں کہ اگر وہ اس موضوع پر بات نہیں کرسکتا تولکھ کر دے دے میں اس اعتراض کا بھی منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہوں۔
بریلوی چونکہ حضور ﷺ کو ہر جگہ حاضر و ناظر مانتے ہیں اس لئے وہ نہ تو اسپیکر استعمال کریں گے نہ نعرے لگائیں گے نہ چیخ چیخ کر بات کریں گے کہ قرآن کہتا ہے کہ لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ۔جبکہ ہم اسپیکر بھی استعمال کریں گے۔اور نعرے بھی لگائیں گے۔
چونکہ بریلوی حضرات ہر جگہ حضور ﷺ کو حاضر و ناظر مانتے ہیں اس لئے ان کی طرف سے صدارت خود حضور ﷺ فرمائیں گے اور وہ کسی کو بھی اپنا صدر منتخب نہیں کرسکتے ۔ان سے کہیں کہ حضور ﷺ کیلئے کوئی جگہ خالی چھوڑ دیں تاکہ وہوہاں تشریف رکھ سکیں اگر انھوں نے اس پر عمل کیا توکہیں کہ آپ نے یہ جگہ حضور ﷺ کیلئے خالی کی کہ وہ یہاں بیٹھیں لہٰذا معلوم ہوا کہ دوسری جگہ پر نہیں تو ہر جگہ حاضر کا عقیدہ کہاں گیا۔۔مولانا صاحب ابھی تو مناظرہ شروع بھی نہیں ہوا اتنی جلدی دعوے کے خلاف۔۔۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی شرائط ہیں جو ایک ماہر مناظر خود ہی وقت پر سوچ کر منوالیتا ہے۔یاد رکھیں کہ کامیاب مناظر وہی ہے جو اپنی شرائط منوائے۔دوران مناظرہ مشکل الفاظ یا دقیق علمی نکات بیان کرکے اپنا علم مت جھاڑیں مسئلہ عوام کو سمجھانا ہے ۔۔۔یہ علمی جوش کسی اور وقت کیلئے بچا کر رکھیں عام فہم اور آسان الفاظ میں مسئلہ سمجھائیں۔
بریلوی حضرات کا دعوی
شرائط کے بعد آپ کو بریلوی حضرات سے دعوی لکھوانا ہوگا ’’ کہ ہم اہلسنت (بقول ان کے)بریلوی حنفی فرقہ آپ ﷺ کو روح مع الجسد یا صرف آپ ﷺ کی روح کو ہر جگہ ،ہر آن ،فلاں تاریخ کے بعد یا ہمیشہ حاضر و ناظر مانتاہے۔
اگر روح مع الجسد لکھوایا جائے تو یہ بھی لکھوانا ہوگا کہ جسم مثالی کے ساتھ یا جسم اصلی کے ساتھ حاضر و ناظر ہیں۔اب آپ ان کے دعوے پر جرح کرنے کیلئے مندرجہ ذیل امور کو اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں۔انشاء اللہ دعوے کے تعین میں ہی بریلوی مناظر کی طبعیت صاف ہوجائے گی۔
دعوے پر جرح (تنقیح دعوی)
بریلوی علم غیب کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کو تدریجا ملا جب وحی مکمل ہوئی تو تمام ماکان و ما یکون کے عالم ہوئے ۔تو کیا حاضر و ناظر کے بارے میں بھی آپ کایہی عقیدہ ہے وضاحت فرمائیں۔۔قبل النبوۃ یا بعد النبوت پیدائش سے پہلے یا بعد۔۔اگر کسی خاص وقت کے بعد حاضر و ناظر ہوئے ہیں تو اس کی وضاحت فرمادیں اس کے بعد کوئی آیت پڑھ دیں جس سے صاف معلوم ہو کہ اس تاریخ کے بعد حاضر و ناظر ہونے پر یہ دلیل شاہد ہے۔۔آپ مناظرہ جیت گئے۔
زندگی میں آپ ﷺ جہاں حاضر و ناظر ہوتے تھے تو آپ ﷺ منظور بھی تھے اور زندگی کے بعد آپ ﷺ حاضر و ناظر ہیں تو منظور کیوں نہیں۔۔؟؟اسکی کوئی خاص وجہ۔۔؟؟اس پر کوئی خاص نص ہے۔۔؟؟آخر یہ خلاف ظاہر کیوں۔
آپ کسی قطعی دلیل سے ثابت کردیں کہ حضور ﷺ اپنی زندگی میں دس بجے یا کسی وقت فلاں فلاں یا ایک سے زائد جگہ حاضر و ناظر تھے ۔۔آپ مناظرہ جیت گئے ہم ہار گئے۔
حدیث میں ہے کہ انبیاء زندہ ہیں اور اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اگر روح مع الجسد حاضر و ناظر ہے تو جسدمبارک قبر میں نہ رہا پھر اس حدیث کاکیا مطلب۔اور اگر صرف روح کے قائل ہیں تو یہ حضورناقص ہے حضور کامل نہ رہا ۔انسان تو نام ہے روح مع الجسد کا روح کی حیثیت راکب کی ہے اور جسم مرکوب کی ۔پھر صرف روح کیوں حاضر و ناظر ہے ۔۔اس کی کیا وجہ ہے؟۔
مولوی احمد سعید ملتانی اور مفتی یار گجراتی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ایک جگہ ہیں لیکن آپ ﷺ کے سامنے پوری کائنات کا ذرہ ذر ہ ہے ۔تو اس پر سوال یہ ہے کہ اس طرح تو آپ حاضر فی مکان واحد ہوئے اور ناظر کل شیء ہوئے ۔یہ بات آپ کے دعوے کے خلاف ہے ۔دعوی آپ نے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا لکھا ہے۔
عقید ہ حاضرو ناظر خاتم النبیین کے منافی ہے:آپ ﷺ ہر جگہ موجود ہیں ۔ہماری درسگاہ میں بھی ،مسجد میں بھی ،دکان میں بھی ۔یہ سب مستقل ہیں یا سب کو ملا کر ایک محمد ﷺ بنایا جائے گا۔اگر ہر ایک مستقل ہے تو پھر آپ خاتم الانبیاء کے تعدد کے قائل ہوئے۔محمد ﷺ کا مسمی ایک تھا آپ نے کئی بنائے۔اگر سارے کو سارے ایک بنایا جائے تو مکمل حاضر و ناظر کے قائل نہیں۔
تعریف حدیث سے مسئلہ حاضر و ناظر کا رد:تقریر نبوی کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کے سامنے کوئی فعل ہوا ہو اور آپ ﷺ نے اس پر کوئی نکیر نہ کی ،نہ اس کی تصویب کی۔یہ بھی حدیث کی ایک قسم ہے۔اب جبکہ آپ ﷺ ہر جگہ موجود ہیں اور آپ کے جلسوں میں بھی موجود ہوتے ہیں ،اور آپ کا عالم علماء دیوبند کو گالیاں دیتا ہے۔اس کو تقریر نبوی حاصل ہے۔نبی ﷺ اس پر نکیر نہیں فرمارہے ہیں لہٰذا اس کو بھی حدیث میں شمار کریں ۔یہ بھی حدیث ہے۔ اس صورت میں ذخیرہ احادیث کو بڑھاتے جائیں۔
پردہ اور آمد جبرائیل علیہ السلام سے اس عقیدے کا رد:آپ ﷺ جب حیات تھے تو جبرائیل علیہ السلام آتے تھے کیا اب بھی آتے ہیں؟ اگر آتے ہیں تو کیا نص ہے؟ اگر نہیں تو کیوں۔۔؟ اس کیلئے کیا نص ہے۔حیات میں تو جب وہ نہیں آتے تو آپ پریشان ہوجاتے۔
آپ ﷺ جب حیات تھے تو عورتوں کا پردہ تھا آپ سے ۔کیا حیات کے بعد وہ حکم نہیں رہا ۔۔؟۔اور کیا اب آپ عورتوں سے پردہ نہیں فرماتے۔۔؟؟اس لئے کہ آپ ﷺ تو ہر جگہ ناظر ہیں۔
وللاخرۃ خیر لک من الاولی سے اس عقیدے کی تردید:رسول پاک ﷺ جب اس دنیا سے چلے گئے تواللہ میزبان اور رسول اللہ ﷺ مہمان ہیں ،تو اللہ کی میزبانی کو چھوڑ کراور روضۃ من ریاض الجنۃ کو چھوڑ کر جلسوں میں آجائیں۔۔؟؟یہ کیابات ہے روح مبارک جسم کو چھوڑ کر جلسوں میں آجائے حالانکہ جب ملک الموت آپ ﷺ کی روح مبارک کو نکال رہے تھے تو آپ ﷺ کو تکلیف ہورہی ہے۔اس بارے میں حضرات نے فرمایا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ روح پوچھ رہی تھی کہ مجھے کہاں لے کے جاؤ گے ؟کہا گیا جنت میں ،روح نے کہا کہ میرے لئے یہی جسم ہی جنت ہے اور روضہ بھی جنت ہے ۔مجھے یہیں رہنے دو ۔جب روح جنت میں جانے کیلئے تیار نہیں اور ملک الموت سے لڑائی کررہی ہے ۔تو کیوں اس جسم مبارک کو چھوڑ کر اس دنیا میں تشریف لے آئیں۔
آخری بات:سب باتیں چھوڑیں آپ اور ہم میں فیصلہ بہت آسان ہے کسی لمبے چوڑے مناظرے کی ضرورت نہیں ۔۔کیا آپ بتا سکتے ہیں جب آپ ﷺ زندہ تھے تو ٹھیک دس بجے ،مدینہ ،مکہ شام اور فلاں فلاں مقام پر بھی تھے۔زمین پر بھی تھے آسمان پر بھی تھے ۔۔اس کا ثبوت آپ دے دیں شکست ہم لکھ کر دیتے ہیں۔اور جب حیات میں یہ ثابت نہیں اور آپ قیامت تک ثابت نہیں کرسکتے تو وفات کے بعد بھی نہیں ہیں ۔اگر حاضر ہیں تو ازواج مبارکہ کی باری کیوں مقرر کی۔۔؟؟۔
احناف کی طرف سے جواب دعوی
ہم لوگ اہل سنت والجماعت دیوبندی حنفی آنحضرت ﷺ کو وصال مبارک کے بعد مزار مبارک میں بعثت کبری سے پہلے زندہ مانتے ہیں ۔لیکن یہ زندگی اس قسم کی نہیں کہ آپ کائنات میں تصرف کریں اور ہر جگہ ہر آن موجود ہوں۔یعنی ہر جگہ حاضر و ناظر ہوں۔اور حضور ﷺ کے بارے میں یا انبیاء کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا روافض اور عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔
اگر آپ نے دعوے میں یہ لکھوایا تو پھر ثابت بھی کرنا ہوگا کہ اس قسم کا عقیدہ روافض اور عیسائیوں کا ہے۔اور انشاء اللہ یہ آگے ہم ثابت کردیں گے۔
احناف کے دلائل
ہوسکتا ہے کہ کوئی بریلوی مناظر یہ اعتراض کرے کہ آپ نافی ہیں یعنی سائل اور ہم مدعی اور نافی دلائل نہیں دے سکتا بلکہ دلیل مدعی کے ذمہ ہوتی ہے۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ اگر چہ یہ درست ہے کہ دلیل مدعی کے ذمہ ہے۔اور نافی دلیل نہیں دے گامگر نافی کی دلیل اگر مدلول نص ہو تو (یعنی اس کی نفی پر کوئی نص ہو) تو وہ دلیل دے سکتا ہے۔(دیکھئے اصول مناظر ہ کی کتاب ۔مناظرہ رشیدیہ)۔
%% حاضر و ناظر ہونا صفت خاصہ باری تعالی ہے
غیر کو شریک کرنے والا خازج از اسلام ہے %%
::: ترتیب ساجد خان نقشبندی :::
الحمد للہ رب العالیمن والصلوۃ اواسلام علی خاتم الانبیاء و اشرف المرسلین
قارئین کرام الو ہیت کے لواز وخواص اور عبادات کے اصول و قواعد تین ہیں۔تین بنیادوں یا ستونوں پر عبادت کی پوری عمارت قائم ہے۔چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے کلام پاک میں اپنے استحقاق عبادت کو بیان فرمایا ہے تو انہی صفات کا اثبات فرماکر اور غیر اللہ کی عبادت ،دعا و پکار سے منع فرمایاہے تو ان سے انہی صفات کی نفی فرما کر جن میں ان صفات ثلاثہ کا فقدان ہے۔یہ بات یاد رکھیں کہ جب کوئی مشرک کسی کے ساتھ شرک کرتا ہے اور اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرتا ہے تو اس اعتقاد و شعور اور ایمان و یقین کے ساتھ کہ:
(۱) وہ معبود ہر جگہ حاضر وناظر ہے ،جہاں بھی اسے پکاروں وہ میری پکار کو سنتاہے ،میری تکلیف کو دیکھتا ہے اور موقعہ پر میری مشکل کو حل کرتا ہے اور حاجت روائی کردیتا ہے ۔
(۲) وہ معبود عالم الغیب ہے میرے دکھ و درد کو جانتا ہے اسے میرے مصیبت کا خواہ کہیں بھی ہو خوب علم ہے۔دنیا کی کوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔
(۳) وہ معبود قدرت و اختیار رکھتا ہے ۔مالک و مختار متصرف فی الامور ہے ۔نفع و نقصان کا مالک ہے ،میری تکلیف میرا دکھ درد دور کرنے والا ہے۔
اگر آپ تھوڑی تحقیق کرکے معلوم کریں تو آپ جانیں گے کہ ہر مشرک بنیادی طور پر یہی تین احساسات رکھتا ہے ۔چنانچہ مشرکین سابقین کے متعلق حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:وقالو ا ھولآء یسمعون و یبصرون و یشفعون لعبادھم و یدوبرون امورھم و ینصرونھم (حجۃ اللہ البالغہ جلد اول ص ۱۰۸)یعنی مشرکین کہتے ہیں کہ یہ معبود سنتے ہیں ،دیکھتے ہیں اپنے پجاریوں کی سفارش کرتے ہیں ان کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔
قارئین ان تین بنیادی اصولوں میں سے دوسرے اصول یعنی علم الغیب ہر ہم تفصیلی گفتگو اسی فورم پر کرچکے ہیں اور دونوں طرف کے دلائل بھی آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں ۔۔اس وقت اس مضمون میں عقیدہ حا ضر و ناظر پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔اور جہاں تک مختار کل کو تعلق ہے تو انشاء اللہ اگر موقع ملے تو اس پر پھر کسی وقت گفتگو کریں گے۔البتہ اس موضوع پر حضرت شاہ صاحب شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’تقویۃ الایمان ‘‘ سے بہتر کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گزری۔میری خواہش ہوگی کہ ہر مسلمان اس کتاب کے درس کا اہتمام باقاعدہ گھروں میں کیا جائے ۔
اللہ تعالی ہر چیز پر حاضر موجود ہیں
(۱) ان اللہ علی کل شیء شہید (پارہ نساء ،ع ۵ ،سورہ احزاب ع۷ ۔۲ بار)بے شک اللہ تعالی ہر چیز پر حاضر ہے۔
(۲) و انت علی کل شیء شہید (پارہ ۷ آکر سورہ مائدہ )اور تو (اے اللہ ) ہر چیز پر حاضر ہے۔
(۳) و کان اللہ علی کل شیء رقیبا (پارہ ۲۲ سورہ احزاب ع۶)اور اللہ تعالی ہر چیز پر نگہبان ہے۔
(۴) وما تکون فی شان وماتتلوا منہ من قران ولا تعلمون من عمل الا کنا علیکم شھودا اذ تضیفون فیہ (پارہ ۱۱سورہ یونس ع۷)اور آپ (خواہ)کسی حال میں ہوں اور آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور تم جو بھی کام کرتے ہو ہم تمہارے پاس حاضر ہوتے ہیں جب تم اس کام میں مصروف ہوتے ہو۔
یعنی جب نبی کریم ﷺ قرآن پڑھتے پڑھاتے ہوں یا اسی خصوصی و امتیازی شان کے علاوہ کسی حال میں ہوں یا کوئی شخص کسی کام کو شروع کرے اور اس میں مصروف و مشغول ہوں۔اللہ تعالی تعالی وہاں موجود ہوتے ہیں۔
(۵) واللہ شہید علی ما تعملون (آل عمران ع۱۰ )اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اس پر حاضر ہیں۔
(۶) اللہ شہید علی ما یفعلون (یونس ۱۱ ع۵)
(۷) وھو معکم این ما کنتم واللہ بما تعملون بصیر (پارہ ۲۷ حدید ع اول)تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔
(۸) ما یکون من نجوی ثلثۃ لاھو رابعھم ولا خمسۃ الا ھو سادسھم ولا ادنی من ذالک ولا اکثر الا ھو معھم این ما کانوا ثم ینءھم بما عملوا یوم القیامۃ ان اللہ بکل شیء علیم (پارہ ۲۸ سورہ مجادلہ ع ۲)تین شخصوں کی کوئی سرگوشی ایسی نہیں ہوتی جہاں وہ (یعنی اللہ ) ان میں چوتھا نہیں ہوتا اور نہ پانچ کی جہاں وہ ان میں چھٹا نہیں ہوتا اور نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ مگر وہ (بہرحالت)ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے خوہ وہ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں پھر ان کو قیامت کے دن ان کا کیا ان کو بتلائے گا بے شک اللہ تعالی ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
(۹) یستخفون م نالناس ولا یستخفون من اللہ وھو معھم اذ یبیتون مالا یرضی من القول (سورہ نساء ع۱۶)لوگوں سے چھپتے ہیں اور اللہ سے نہیں چھپ سکتے اور وہ ان کے ساتھ ہیں جبکہ وہ رات کو خلاف مرضی الٰہی بات تا کامشورہ کرتے ہیں ۔
اللہ ناظر بصیر ہے
(۱۰) واللہ بصیر بالعباد (آل عمران ع۲و مومن ع۵)اور اللہ تعالی بندوں کو خوب دیکھنے والے ہیں
(۱۱) انہ کان بالعباد خبیرا بصیرا (بنی اسرائیل ع۳فرقان ع ۲،خاتمہ فاطر،فتح ع۳)بے شک وہ اپنے بندوں سے خبردار اور دیکھنے والا ہے۔
(۱۲) واللہ بصیر بما یعملون (بقرہ ،آل عمران ،انفال ۔۔بقرہ ع۳۶ آل عمران انفال آخر ع حدید،ممتحنہ بادنی تغیر )او ر اللہ دیکھنے والا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔
(۱۳) انہ بکل شیء بصیر (سورہ ملک آکری ع)بے شک اللہ تعالی ہر چیز کو دیکھنے والا ہے ۔
(۱۴) الذی یراک حین تقوم و تقلب فی الساجدین (آؒ خر شعراء )
(۱۵) قل عسی ربکم ان یھلک عدوکم ویستخلفکم فی الارض کیف تعملو ن(پ ۹ ع۵ آیت ۳)کہا نزدیک ہے کہ تمہارا رب ہلاک کردے تمہارے دشمن کو اور تمھیں زمین کا خلیفہ بنادے پھر وہ نظر کرے کہ تم کیسا کام کرتے ہو۔
قارئین کرام انتہائی اختصار کے ساتھ اس وقت آپ کے سامنے قرآن کریم سے کل پندرہ آیات پیش کی گئی ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا یہ صرف اللہ تعالی کی صفت ہے ۔ان میں سے اکثر آیات ایک بار سے زیادہ بار قرآن کریم میں موجود ہیں ۔جبکہ پورے قرآن میں اس مضمون کی قریبا سو آیا موجود ہیں جو ہر ایک کو تھوڑے سے غور فکر کے بعد مل جائیں گی ۔اس وقت ان تمام آیات کا احاطہ کرنا مقصود نہیں بلکہ بات کو سمجھانا اور مسئلہ کو واضح کرنا مقصود ہے ۔اب قرآنی براہین کے بعد اسلام کے دوسرے اصول یعنی احادیث نبوی ﷺ کو بھی ملاحظہ فرمالیں کہ وہاں اس مسئلہ کو کیسے واضح کیا گیا ہے۔
احادیث مبارکہ سے اللہ تعالی کے حاضر و ناظر ہونے کا ثبوت
حضرت ابو موسی اشعریؓ سیروایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے لوگ زور کی آواز سے تکبیر کہنے لگے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
(۱) انکم تدعون سمیعا بصیرا وھو معکم والذی تدعونہ اقرب الی احدکم من عنق راحلتہ (صحیح بخاری ،مسلم ،مشکوۃ شریف باب ثواب التسبیح ) تم تو اس خدا کو پکارتے ہو جو سننے والا دیکھنے والا ہے اور جو تمہارے ساتھ ہے اورتم سے تمہارے اونٹ کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے۔
سبحان اللہ درجنوں آیات قراآنی میں جن صفات ربانی کو واضح فرمایا گیا ایک ہی ارشادنبوی ﷺ میں ان تمام صفات کو میرے آقا ﷺ نے اجمالی طور پر بیان فرمادیا ۔حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زورزور سے اللہ کا ذکر کرنا خاص کر آج کل جو بریلوی مساجد یا دیگر مساجد میں جڑ پکڑ چکا ہے یہ خلاف سنت اور بدعت ہے۔
حضرت عبد اللہ بن معاویہ عامریؓ روایتکرتے ہیں کہ میں نے عرض کیاکہ
(۲) فما تزکیۃ المرء نفسہ یا رسول اللہ قال ان یعلم ان اللہ معہ حیثما (رواہ البزاز فی مسندہ بحوالہ ترجمان السنہ جلد ددوم حدیث ۵۰۷)یا رسول اللہ کسی شخص کا اپنے نفس کو پاک کرنے کاکیاطریقہ ہے ؟فرمایا اسبات کا یقین ہوکہ انسان جس جگہ بھی ہو اللہ اسکے ساتھ ہے۔
(۳) اللھم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الاھل (مشکوۃ المصابیح باب الدعوات فی الاوقات)اے اللہ تو سفر میں میرا ساتھی ہے اور اہل عیال کامحافظ۔
(۴) ان اللہ نظر الی اھل الارض فمقتھم عربھم وعجمھم الا بقایا من اھل الکتاب (صحیح مسلم ج ۲ص ۳۸۵)اللہ نے زمین والوں پر نظر کی اور دیکھا تو تمام عرب و عجم والوں پر ناراض ہو ا مگر اہل کتاب میں سے کچھ آدمی اللہ کی ناراضگی سے بچ گئے۔
(۵) ان اللہ مستخلفکم فیھا فینظر کیف تعملون (مسند طیالسی ص۲۸۶)آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی تمھیں زمین کا خلیفہ بنائے گاپھر نظر کریگا تم کیا کام کرتے ہو۔
(۶) ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولکن ینظر الی اعمالکم (مسلم ج۲ ص۳۱۷ مشکوۃ ۴۵۴)کہ اللہ تعالی تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا (بایں طور کہ کون خوبصورت ہے کون بدصورت)لیکن تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔
(۷) ان الدینا حلوۃ خضرۃ و ان اللہ مستخلفکم فیھا فناظر کیف تعملون (ترمذی ص۴۶،ابن ماجہ ص ۲۹۷،مستدرک ج۴ص۵۰۵،مشکوۃ شریف ۴۳۷)دنیابڑی لذیذ اور سر سبز دلکش ہے اللہ تعالی تمھیں زمین کا خلیفہ بنانے والا ہے پھر دیکھنے والا ہے کہ تم کیا کرتے ہو۔
کاظمی صاحب کی بھڑکیں بھی سن لیں
قارئین کرام اس حدیث میں صاف طورپر اللہ کی ذات پر ’’ناظر‘‘ کا اطلاق کیا گیا ہے مگر دوسری طرف بریلویوں کے جعلی غزالی دوراں احمد سعید کاظمی صاحب کی تحقیق بھی ملاحظہ فرمالیں
اللہ تعالی کے اسماء میں سے حاضر و ناظرکوئی نام نہیں اور قرآ ن و حدیث میں کسی بھی جگہ حاضر و ناظر کا لفظ ذات باری تعالی کیلئے وارد نہیں ہوا نہ سلف و صالحین نے اللہ تعالی کیلئے یہ لفظ بولا ۔کوئی شخص قیامت تک ثابت نہیں کرسکتا کہ صحابہ کرام یاتابعین یا آئمہ مجتہدین نے کبھی اللہ کیلئے حاضر و ناظر کالفظ استعمال کیاہو۔(تسکین الخواطر ص۳)
کاظمی صاحب تواب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن بریلوی حضرات اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیایہ حدیث نہیں اور کیااس میں ناظر کا لفظ جناب رسول اللہ ﷺ نے ذات باری تعالی پر اطلاق نہیں کیا ؟اور کیااس حدیث کے پہلے راوی ابو سعید الخدریؓ صحابی رسول ﷺ نہیں ؟۔۔اور کیا ابو نضرہ ؒ تابعی نہیں جویہ روایت نقل کررہے ہیں ۔۔۔۔۔؟؟؟؟
ٹوٹ جائے نہ تیغ اے قاتل سخت جان ہوں ذرا سمجھ کر کھینچ
بریلوی حضرات سے اس موضوع پر بات کرنے کے اصول
اس موضوع پر بات کرنے کیلئے وہی اصول اپنائیں جو فقیر آپ کے سامنے علم غیب پر بات کرنے کے اصول میں بیان کرچکا ہے ۔اس لئے کہ یہ بات پہلے واضح کی جاچکی ہے کہ اپنے مطلب اور مدلول کے اعتبار سے یہ دونوں ایک ہی موضوع ہیں صرف لفظی تغایر ہے۔
مناظرے کا ایک اہم رکن مدعی کا تعین ہے۔جیسا کہ میں پہلے واضح کرچکا ہوں کہ انٹرنیٹ پر اکثر ساتھی جوش میں آکر اختلافی موضوعات پر خود ہی مدعی بن جاتے ہیں اور بریلوی پھر بار بار دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ بات یاد رکھیں کہ تمام اختلافی امور میں بریلوی حضرات ہی مدعی ہیں۔مدعی کی تعریف میں علم الغیب والے مضمون میں واضح کرچکا ہوں وہ تمام امور میں بریلوی حضرات پر ہی صادق آتی ہے۔اس موضوع پر بریلوی مدعی ہیں چند دلائل ملاحظہ ہو۔
(۱) مدعی کی ایک تعریف یہ ہے کہ اذا ترک ترک جب وہ اپنا دعوی چھوڑ دے تواس سے بحث و مباحثہ چھوڑ دیا جاتا ہے ۔یہ تعریف بریلویوں پر صادق آتی ہے اگر بریلوی مخلوق کیلئے حاضر و ناظر کا دعوی چھوڑ دے تو ہم ان سے بحث ترک کردیں گے۔
(۲) اصول مناظرہ میں یہ بات طے ہے کہ بدیہات میں مناظرہ نہیں ہوتا اور ایک شخص کا ایک وقت میں ایک سے زائد مکان میں نہ ہونا یہ بدیہات میں سے ہے اس اصول کے تحت تو بریلوی حضرات کے دعوی اس قدر خلاف ہے کہ ان سے اصول کے تحت مناظرہ بھی نہیں ہوسکتا مگر وہ کرتے ہیں تو ہمیں بھی جواب دینا پڑتا ہے لہٰذا مدعی بریلوی ہونگے۔
(۳) مدعی کی ایک تعریف یہ میں نے بتائی تھی کہ جو ایک زائد امر کو ثابت کرے بریلوی حضرات اللہ کے سوا مخلوق کو(جی ہاں وہ اولیاء کو بھی حاضر و ناظر بلکہ عالم الغیب تک مانتے ہیں دیکھئے بہار شریعت حصہ اول) حاضر و ناظر مانتے ہیں جو کہ امر زائد ہے اس اصول کے تحت وہ مدعی ہیں۔اسکے علاوہ بھی کئی دلائل ہیں تفصیل کیلئے حمیدیہ یارشیدیہ کا مطالعہ کریں جو اصول مناظرہ پر لکھی گئی معروف کتابیں ہیں۔
مدعی متعین ہوجانے کے بعد وہ اپنا دعوی لکھے گا اور اپنے موقف پر دلائل دے گا آپ کا کام ان کے دلائل پر نقض تفصیلی دائر کرنا ہوگا اور اپنے موقف پر بھی دلائل دے سکتے ہیں۔مگر یہ آپ پر ضروری نہیں اور نہ ہی وہ اس کا مطالبہ کرے گا۔انٹرنیٹ پر (پال ٹالک) پر فقیر نے یہ دیکھا ہے کہ اکثر فریقین طوطے کی طرح اپنے اپنے موقف پر دلائل دیتے ہیں اور دوسری کی دلیل پر بالکل جرح نہیں کرتے یہ بالکل غلط طریقہ ہے کہ اس سے عوام یہ سمجھتی ہے کہ دونوں طرف سے قرآن و حدیث پیش کیا جارہا ہے جس پر چاہے عمل کرو ۔نہیں پہلے فریق مخالف کے دلائل پر تفصیل کے ساتھ نقص دائر کریں اس کے بعد اپنی دلیل دیں۔
بریلوی اللہ تعالی کو حاضر و ناظر نہیں مانتے جس کا ثبوت آگے آئے گا لیکن ہم صرف اللہ تعالی کو ہی حاضر و ناظر مانتے ہیں لہٰذا اس پر دلیل بھی ہم دیں گے۔
حاضر و ناظر کا مسئلہ عقائد کا مسئلہ ہے لہٰذا دلیل صرف قطعی ہوگی یعنی قرآن کی آیت جو قطعی الدلالت ہو یعنی اس کے اندر ایک سے زائد احتمال نہ ہو ورنہ قطعی الثبوت تو ہوگی قطعی الدلالت نہ ہوگی یاد رہے کہ قرآن تمام کاتمام قطعی الثبوت ہے اس کا منکر کافر ہے مگر قطعی الدلات نہیں۔اور حدیث اگر ہو تو متواتر البتہ اگر خبر احادکو تلقی قبول حاصل ہوگیا ہو تو اس سے بھی مستقل استدلال کیا جاسکتا ہے۔
کشف و کرامت حجت نہیں لہٰذا وہ پیش نہیں کیا جائے گا۔اور یہ اصول کے تحت مبرہن ہے کہ کشف و کرامت تو خود صاحب کشف کیلئے حجت نہیں تو ہمارے لئے کیسے ہو۔صوفی کا کوئی قول پیش نہیں کیا جائے گا۔اکابرین امت کے اقوال اپنے دلائل کی تائید کیلئے پیش کئے جاسکتے ہیں ۔مگر ان سے مستقل احتجاج ہر گز قابل التفات نہیں۔خواب بھی معتبر نہیں۔مولوی سعید کاظمی نے تسکین الخواطر میں باقاعدہ دلیل دی ہے کہ حضور ﷺ ہر کسی کے خواب میں آتے ہیں لہٰذا وہ حاضر و ناظر ہیں۔۔اس پر تفصیلی دلائل میں نے حضرت تھانوی ؒ کے مرید پر کلمہ پڑھنے کے الزام کا جواب میں دیا۔لیکن اگر وہ نہ مانے تو اس سے کہو کہ اگر کل کو کوئی مسلمان خواب میں دیکھ لے کہ کسی بریلوی مولوی کی بیٹی سے نکاح کررہا ہے تو کیا وہ اس کو اپنی بیٹی دیں گے۔۔؟؟؟؟اس لئے کہ خواب تو ان کے نزدیک حجت ہے ۔۔ان سے پوچھو کہ اگر خواب سے کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو بریلوی اپنے مولویوں پر حد جاری کیوں نہیں کرتے ۔۔جب ان کو خواب میں احتلام ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟انشاء اللہ ان کا منہ بالکل بند ہوجائے گا۔۔شرافت سے ان کا منہ آپ کبھی بند نہیں کرسکتے۔
دلائل مسلم بین الفریقین کتب سے دئے جائیں اگر کوئی کتاب یا کسی ہستی کو فریق مخالف نہیں مانتا تو آپ اس سے حوالہ نہیں دیں گے ہاں اگر وہ ضد کی بناء پر کسی معتبر ہستی کا انکار کرتا ہے جیسے آج کل بریلوی حضرات مفسر ابن کثیر یا حضرت شاہ والی اللہ رحمھما اللہ پر فتوے لگاتے ہیں تو یہ ان کی ہٹ دھرمی ہے اس کو ہرگز نہیں مانا جائے گا۔بلکہ اس صورت میں آپ اس کی تحریر بھی لیں ۔
عقائد قیاس میں معتبر نہیں القیاس لا یجری فی العقائد ۔لہٰذا قیاس نہیں چلے گا مطلب بریلوی کہے گا کہ شیطان ہر جگہ حاضر و ناظر ہے العیاذ باللہ (یہ بالکل سفید جھوٹ ہے آگے ثابت کیا جائے گا) تو حضور ﷺ بھی ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں کہ وہ شیطان سے افضل ہیں نعوذ باللہ (عبد السمیع انوار ساطعہ مفتی احمد یار جاء الحق)ایسا شیطانی قیاس نہیں چلے گا۔آپ کہو کہ اگر میں کہوں کہ مکھی اڑتی ہے مگر مولوی رضاخان نہیں لہٰذا مولوی رضاخان مکھی سے اسی صورت میں افضل ہونگے جب وہ اڑیں گے تو کیا وہ اس کو مانیں گے۔۔۔؟؟؟
آیت کے مقابلے میں آیت حدیث کے مقابلے میں حدیث اگر ایسا نہیں تو پہلے اس سے تحریر لیں کہ ہمارے پاس اس کا جواب آیت و حدیث سے نہیں ۔۔اسکے بعد اس کا جواب دیں اگر دینا چاہیں۔
یہ شرط لازمی رکھیں کہ دوران مناظرہ فریقین ایک دوسرے جوبات لکھنے کا مطالبہ کریں تو دوسرے پر تحریر دینی لازمی ہوگی۔
اگر کوئی کتاب کسی فریق کے پاس نہیں اور دوسرا فریق ایسی کتاب سے دلائل دے رہا ہے تو مطالبے پر اصل کتاب دوسرے فریق کو دکھانا لازم ہوگا۔
وقت کا تعین کہ مناظرین کی تقریریں کتنے کتنے منٹ پر ہوگی اور مدت مناظرہ مثلا ایک دن دو دن تین دن۔اس سے زیادہ مناظرے کا وقت مقرر نہ کریں۔
جو موضوع طے ہوا ہے اس کو چھوڑ کر یا موضوع کے دوران دوسرے موضوع کو چھیڑنے والے فریق کی یہ حرکت اس کی شکست ہوگی۔انشاء اللہ بریلوی مناظر نے اس موضوع پر جو مواد رٹا ہوگا وہ تیسری چوتھی تقریر پر ہی ختم ہوجائے گا اور پھر وہ اپنے اصل موضوع یعنی عبارت اکابر پر آجائے گامثلا وہ کہے گا کہ تم کیوں حضور ﷺ کو حاضر و ناظر مانو گے۔تم تو ہو ہی گستاخ تمہارے فلاں مولوی نے یہ کہا وہ کہا اس کا ہر گز جواب نہ دے بلکہ ان سے تحریر لیں کہ اگر وہ اس موضوع پر بات نہیں کرسکتا تولکھ کر دے دے میں اس اعتراض کا بھی منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہوں۔
بریلوی چونکہ حضور ﷺ کو ہر جگہ حاضر و ناظر مانتے ہیں اس لئے وہ نہ تو اسپیکر استعمال کریں گے نہ نعرے لگائیں گے نہ چیخ چیخ کر بات کریں گے کہ قرآن کہتا ہے کہ لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ۔جبکہ ہم اسپیکر بھی استعمال کریں گے۔اور نعرے بھی لگائیں گے۔
چونکہ بریلوی حضرات ہر جگہ حضور ﷺ کو حاضر و ناظر مانتے ہیں اس لئے ان کی طرف سے صدارت خود حضور ﷺ فرمائیں گے اور وہ کسی کو بھی اپنا صدر منتخب نہیں کرسکتے ۔ان سے کہیں کہ حضور ﷺ کیلئے کوئی جگہ خالی چھوڑ دیں تاکہ وہوہاں تشریف رکھ سکیں اگر انھوں نے اس پر عمل کیا توکہیں کہ آپ نے یہ جگہ حضور ﷺ کیلئے خالی کی کہ وہ یہاں بیٹھیں لہٰذا معلوم ہوا کہ دوسری جگہ پر نہیں تو ہر جگہ حاضر کا عقیدہ کہاں گیا۔۔مولانا صاحب ابھی تو مناظرہ شروع بھی نہیں ہوا اتنی جلدی دعوے کے خلاف۔۔۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی شرائط ہیں جو ایک ماہر مناظر خود ہی وقت پر سوچ کر منوالیتا ہے۔یاد رکھیں کہ کامیاب مناظر وہی ہے جو اپنی شرائط منوائے۔دوران مناظرہ مشکل الفاظ یا دقیق علمی نکات بیان کرکے اپنا علم مت جھاڑیں مسئلہ عوام کو سمجھانا ہے ۔۔۔یہ علمی جوش کسی اور وقت کیلئے بچا کر رکھیں عام فہم اور آسان الفاظ میں مسئلہ سمجھائیں۔
بریلوی حضرات کا دعوی
شرائط کے بعد آپ کو بریلوی حضرات سے دعوی لکھوانا ہوگا ’’ کہ ہم اہلسنت (بقول ان کے)بریلوی حنفی فرقہ آپ ﷺ کو روح مع الجسد یا صرف آپ ﷺ کی روح کو ہر جگہ ،ہر آن ،فلاں تاریخ کے بعد یا ہمیشہ حاضر و ناظر مانتاہے۔
اگر روح مع الجسد لکھوایا جائے تو یہ بھی لکھوانا ہوگا کہ جسم مثالی کے ساتھ یا جسم اصلی کے ساتھ حاضر و ناظر ہیں۔اب آپ ان کے دعوے پر جرح کرنے کیلئے مندرجہ ذیل امور کو اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں۔انشاء اللہ دعوے کے تعین میں ہی بریلوی مناظر کی طبعیت صاف ہوجائے گی۔
دعوے پر جرح (تنقیح دعوی)
بریلوی علم غیب کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کو تدریجا ملا جب وحی مکمل ہوئی تو تمام ماکان و ما یکون کے عالم ہوئے ۔تو کیا حاضر و ناظر کے بارے میں بھی آپ کایہی عقیدہ ہے وضاحت فرمائیں۔۔قبل النبوۃ یا بعد النبوت پیدائش سے پہلے یا بعد۔۔اگر کسی خاص وقت کے بعد حاضر و ناظر ہوئے ہیں تو اس کی وضاحت فرمادیں اس کے بعد کوئی آیت پڑھ دیں جس سے صاف معلوم ہو کہ اس تاریخ کے بعد حاضر و ناظر ہونے پر یہ دلیل شاہد ہے۔۔آپ مناظرہ جیت گئے۔
زندگی میں آپ ﷺ جہاں حاضر و ناظر ہوتے تھے تو آپ ﷺ منظور بھی تھے اور زندگی کے بعد آپ ﷺ حاضر و ناظر ہیں تو منظور کیوں نہیں۔۔؟؟اسکی کوئی خاص وجہ۔۔؟؟اس پر کوئی خاص نص ہے۔۔؟؟آخر یہ خلاف ظاہر کیوں۔
آپ کسی قطعی دلیل سے ثابت کردیں کہ حضور ﷺ اپنی زندگی میں دس بجے یا کسی وقت فلاں فلاں یا ایک سے زائد جگہ حاضر و ناظر تھے ۔۔آپ مناظرہ جیت گئے ہم ہار گئے۔
حدیث میں ہے کہ انبیاء زندہ ہیں اور اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں اگر روح مع الجسد حاضر و ناظر ہے تو جسدمبارک قبر میں نہ رہا پھر اس حدیث کاکیا مطلب۔اور اگر صرف روح کے قائل ہیں تو یہ حضورناقص ہے حضور کامل نہ رہا ۔انسان تو نام ہے روح مع الجسد کا روح کی حیثیت راکب کی ہے اور جسم مرکوب کی ۔پھر صرف روح کیوں حاضر و ناظر ہے ۔۔اس کی کیا وجہ ہے؟۔
مولوی احمد سعید ملتانی اور مفتی یار گجراتی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ایک جگہ ہیں لیکن آپ ﷺ کے سامنے پوری کائنات کا ذرہ ذر ہ ہے ۔تو اس پر سوال یہ ہے کہ اس طرح تو آپ حاضر فی مکان واحد ہوئے اور ناظر کل شیء ہوئے ۔یہ بات آپ کے دعوے کے خلاف ہے ۔دعوی آپ نے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا لکھا ہے۔
عقید ہ حاضرو ناظر خاتم النبیین کے منافی ہے:آپ ﷺ ہر جگہ موجود ہیں ۔ہماری درسگاہ میں بھی ،مسجد میں بھی ،دکان میں بھی ۔یہ سب مستقل ہیں یا سب کو ملا کر ایک محمد ﷺ بنایا جائے گا۔اگر ہر ایک مستقل ہے تو پھر آپ خاتم الانبیاء کے تعدد کے قائل ہوئے۔محمد ﷺ کا مسمی ایک تھا آپ نے کئی بنائے۔اگر سارے کو سارے ایک بنایا جائے تو مکمل حاضر و ناظر کے قائل نہیں۔
تعریف حدیث سے مسئلہ حاضر و ناظر کا رد:تقریر نبوی کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کے سامنے کوئی فعل ہوا ہو اور آپ ﷺ نے اس پر کوئی نکیر نہ کی ،نہ اس کی تصویب کی۔یہ بھی حدیث کی ایک قسم ہے۔اب جبکہ آپ ﷺ ہر جگہ موجود ہیں اور آپ کے جلسوں میں بھی موجود ہوتے ہیں ،اور آپ کا عالم علماء دیوبند کو گالیاں دیتا ہے۔اس کو تقریر نبوی حاصل ہے۔نبی ﷺ اس پر نکیر نہیں فرمارہے ہیں لہٰذا اس کو بھی حدیث میں شمار کریں ۔یہ بھی حدیث ہے۔ اس صورت میں ذخیرہ احادیث کو بڑھاتے جائیں۔
پردہ اور آمد جبرائیل علیہ السلام سے اس عقیدے کا رد:آپ ﷺ جب حیات تھے تو جبرائیل علیہ السلام آتے تھے کیا اب بھی آتے ہیں؟ اگر آتے ہیں تو کیا نص ہے؟ اگر نہیں تو کیوں۔۔؟ اس کیلئے کیا نص ہے۔حیات میں تو جب وہ نہیں آتے تو آپ پریشان ہوجاتے۔
آپ ﷺ جب حیات تھے تو عورتوں کا پردہ تھا آپ سے ۔کیا حیات کے بعد وہ حکم نہیں رہا ۔۔؟۔اور کیا اب آپ عورتوں سے پردہ نہیں فرماتے۔۔؟؟اس لئے کہ آپ ﷺ تو ہر جگہ ناظر ہیں۔
وللاخرۃ خیر لک من الاولی سے اس عقیدے کی تردید:رسول پاک ﷺ جب اس دنیا سے چلے گئے تواللہ میزبان اور رسول اللہ ﷺ مہمان ہیں ،تو اللہ کی میزبانی کو چھوڑ کراور روضۃ من ریاض الجنۃ کو چھوڑ کر جلسوں میں آجائیں۔۔؟؟یہ کیابات ہے روح مبارک جسم کو چھوڑ کر جلسوں میں آجائے حالانکہ جب ملک الموت آپ ﷺ کی روح مبارک کو نکال رہے تھے تو آپ ﷺ کو تکلیف ہورہی ہے۔اس بارے میں حضرات نے فرمایا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ روح پوچھ رہی تھی کہ مجھے کہاں لے کے جاؤ گے ؟کہا گیا جنت میں ،روح نے کہا کہ میرے لئے یہی جسم ہی جنت ہے اور روضہ بھی جنت ہے ۔مجھے یہیں رہنے دو ۔جب روح جنت میں جانے کیلئے تیار نہیں اور ملک الموت سے لڑائی کررہی ہے ۔تو کیوں اس جسم مبارک کو چھوڑ کر اس دنیا میں تشریف لے آئیں۔
آخری بات:سب باتیں چھوڑیں آپ اور ہم میں فیصلہ بہت آسان ہے کسی لمبے چوڑے مناظرے کی ضرورت نہیں ۔۔کیا آپ بتا سکتے ہیں جب آپ ﷺ زندہ تھے تو ٹھیک دس بجے ،مدینہ ،مکہ شام اور فلاں فلاں مقام پر بھی تھے۔زمین پر بھی تھے آسمان پر بھی تھے ۔۔اس کا ثبوت آپ دے دیں شکست ہم لکھ کر دیتے ہیں۔اور جب حیات میں یہ ثابت نہیں اور آپ قیامت تک ثابت نہیں کرسکتے تو وفات کے بعد بھی نہیں ہیں ۔اگر حاضر ہیں تو ازواج مبارکہ کی باری کیوں مقرر کی۔۔؟؟۔
احناف کی طرف سے جواب دعوی
ہم لوگ اہل سنت والجماعت دیوبندی حنفی آنحضرت ﷺ کو وصال مبارک کے بعد مزار مبارک میں بعثت کبری سے پہلے زندہ مانتے ہیں ۔لیکن یہ زندگی اس قسم کی نہیں کہ آپ کائنات میں تصرف کریں اور ہر جگہ ہر آن موجود ہوں۔یعنی ہر جگہ حاضر و ناظر ہوں۔اور حضور ﷺ کے بارے میں یا انبیاء کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا روافض اور عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔
اگر آپ نے دعوے میں یہ لکھوایا تو پھر ثابت بھی کرنا ہوگا کہ اس قسم کا عقیدہ روافض اور عیسائیوں کا ہے۔اور انشاء اللہ یہ آگے ہم ثابت کردیں گے۔
احناف کے دلائل
ہوسکتا ہے کہ کوئی بریلوی مناظر یہ اعتراض کرے کہ آپ نافی ہیں یعنی سائل اور ہم مدعی اور نافی دلائل نہیں دے سکتا بلکہ دلیل مدعی کے ذمہ ہوتی ہے۔اس سلسلے میں عرض ہے کہ اگر چہ یہ درست ہے کہ دلیل مدعی کے ذمہ ہے۔اور نافی دلیل نہیں دے گامگر نافی کی دلیل اگر مدلول نص ہو تو (یعنی اس کی نفی پر کوئی نص ہو) تو وہ دلیل دے سکتا ہے۔(دیکھئے اصول مناظر ہ کی کتاب ۔مناظرہ رشیدیہ)۔
No comments:
Post a Comment